ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / عراق کے نئے وزیرداخلہ ، صدام کی فوج سے ایران کے دوست تک!

عراق کے نئے وزیرداخلہ ، صدام کی فوج سے ایران کے دوست تک!

Wed, 01 Feb 2017 11:10:47  SO Admin   S.O. News Service

دبئی 31جنوری(ایس اونیوزآئی این ایس انڈیا)عراقی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے گذشتہ برس السامریہ سیٹیلائیٹ نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایران کے بیرون ملک عسکری کارروائیوں کے سرپرست اور القدس ملیشیا کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی خدمات کے اعتراف میں ایک یاد گاری مجسمہ تیار کرکے اسے بغداد میں نصب کرے۔یہ مطالبہ کرنے والیصاحب اس وقت عراق کے وزیر داخلہ بن چکے ہیں۔ قاسم محمد جلال الاعرجی کے نام سے شہرت رکھنے والے عراقی رکن پارلیمنٹ کسی دور میں سابق مصلوب صدر صدام حسین کی فوج میں شامل تھے اور آج وہ ایران کے گہرے دوست ہیں اور عراق میں ایران کی کٹھ پتلی حکومت کے وزیر داخلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات پہلے سامنے آچکی ہے کہ الاعرجی عراق میں ایران کی قائم کردہ بدر نامی ایک عسکری تنظیم میں شامل رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اعرجی ایک متنازع شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔53سالہ جلال قاسم الاعرجی کی پروفائل پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماضی میں بھی ایک سرگرم شخص رہے ہیں۔ اس کی پیدائش الکوت کے نواحی علاقے واسط میں ہوئی اور وہیں سے انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گریجوایشن کے لیے انہوں نے ایران کی آیت اللہ المطہری یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ایران ہی امام کاظم کالج سے اسلامیات میں گریجویشن کیاتھا۔رپورٹس کے مطابق الاعرجی ایران میں سنہ 1979ء میں برپا ہونے والے انقلاب کے چند برس بعد تہران پہنچے جہاں وہ بدر ملیشیا سے منسلک ہوگئے۔ انہوں نے عراقی فوج کے ساتھ لڑائی کے لیے وہاں پر تربیت حاصل کی۔ یہ ایران اور عراق کے درمیان آٹھ سالہ جنگ کا دور تھا اور صدام حسین ہی عراقی فوج کے کمانڈر ان چیف تھے۔الاعرجی کی ایران منتقلی اور بدر ملیشیا میں شمولیت کے حوالے سے اور بھی کئی آراء سامنے آئی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق الاعرجی صدام حسین کی زیرقیادت عراقی فوج میں شامل ہوئے اور ایران کے خلاف جنگ میں بھی حصہ لیا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے عراقی وزارت داخلہ کے ایک ذمہ دار ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران ۔ عراق جنگ کے دوران ایرانی فوج نے الاعرجی کو گرفتار کرلیا۔ گرفتاری کیبعد الاعرجی نے ایران کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا۔رپورٹ کے مطابق قاسم الاعرجی نے 1984ء میں ایرانی فوج کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ اس وقت اس کی عمر 16 سال تھی اور انہیں بنجوین کے مقام سے حراست میں لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد قاسم الاعرجی کو ایران میں برندک ملٹری جیل لایا گیا جہاں 700قیدی رکھے گئے تھے۔گرفتاری کے بعد الاعرجی نے عراق کے خلاف علم بغاوت اور ایران کے وفاداری کا علم بلند کیا۔ اس کے ساتھ ہی التوابین نامی ایک عسکری تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ کچھ عرصہ بعد اس نے ایرانی حمایت یافتہ البدر گروپ میں شمولیت اختیار کرلی۔عراقی حکومت سے اعلان برات کرنے والے عراقی فوجیوں اور دیگر شہریوں پر ایران کی جانب سے غیرمعمولی نوازشات کی جاتیں۔ جو قیدی ایران کی مخالفت پرقائم رہتا قید اس کا مقدر بن جاتی اور عراقی حکومت سے ناطہ توڑنے والوں کو ہرقسم کی مراعات دی جاتیں۔فیلق بدر میں شمولیت کے بعد قاسم الاعرجی کی مصروفیات کیا رہیں، ان کے بارے میں معلومات سامنے نہیں آسکیں تاہم یہ بات پایہ تصدیق کو پہنچی ہے کہ جب الاعرجی نے جیل میں ایران کے ساتھ اعلان وفاداری اور صدام حسین کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو اسے تہران میں قائم ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک فوجی کیمپ لایاگیا۔ وہاں پر اس کی عسکری تربیت کی گئی۔تربیت کے حصول کے بعد قاسم الاعرجی نیایرانی سپریم انقلابی کونسل کے زیراہتمام بدر ملیشیا میں شمولیت اختیار کی۔ یہ تنظیم اصلاح عراق میں تھی اور اس میں عراقی حکومت کی مخالف شخصیات ہی کو شامل کیا جاتا تھا۔ اس تنظیم میں شامل ہونے والے ایرانی ایجنٹوں میں محمود ھاشمی شاہرودی بھی شامل تھے جو بعد میں ایران میں جوڈیشل کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔صدام حسین کی سنہ2003ء میں حکومت کے خاتمے کے بعد عراق میں اسلامی انقلابی کونسل کا نام تبدیل کرکے عراق اسلامی کونسل رکھا گیا اور بدر ملیشیا کو بھی عراق میں دیگر عسکری گروپوں کے ساتھ سیاست میں شامل کرنے کا عمل شروع ہوا۔جب امریکا نے سنہ 2003ء میں عراق میں اپنی فوجیں داخل کیں قاسم الاعرجی ایران میں تھے۔ صدام حسین کی حکومت کے سقوط کے بعد وہ عراق منتقل ہوئے اور عسکری سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ اس پر امریکی فوج نے انہیں حراست میں بھی لیا۔الاعرجی 11 اپریل 2003ء کو ایران سے عراق کے شہر سلیمانیہ پہنچے اور 17 اپریل کو امریکی فوج نے انہیں الکاظمیہ شہر سے گرفتار کرلیا اور انہیں عراق کی بوکا جیل منتقل کردیا گیا تاہم 13 جولائی 2003ء کو الاعرجی کورہا کردیا گیا۔


Share: